حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے تہران میں 36ویں بین الاقوامی اسلامی اتحاد کانفرنس کے دوران ہندوستان کی نامور اسلامی اسکالر پدم شری و مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے سابق صدر پروفیسر اختر الواسع نے اشارہ کرتے ہوئے کہ اسلام اتحاد کا دین ہے: اسی لیے یہ کانفرنس جو 36 مرتبہ جاری ہے بہت اہم ہے اور اس کانفرنس کے بانی اور میزبان جو کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہے، کو سراہا جانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: پیغمبر اسلام (ص) کو کافروں کو اسلام لانے کے لیے بھیجا گیا تھا، آپ کو کبھی بھی مسلمانوں کو کافر کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا تھا۔ پس تکفیر پیغمبر اسلام (ص) کے ہدف کے خلاف ہے۔
اس ممتاز ہندوستانی عالم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: اگر ہم یہ مان لیں کہ ہر انسان کو کسی بھی مذہب کو منتخب کرنے کا حق ہے تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔
ہندوستان میں لسانی اقلیت کے سابق کمشنر نے تاکید کی: آج ہمیں مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت ہے اور دیگر مذاہب کو بھی اپنے ایجنڈے میں مذاہب کے میل جول کو رکھنا چاہیے۔ لہٰذا یہ کام صرف اسلامی جمہوریہ ایران ہی کر سکتا ہے اور اگر ایران میں مذاہب اور مسالک کا تخمینہ لگایا جائے تو اس طرح یہ ایک اچھی شروعات ہوگی۔
آخر میں انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کا شکریہ ادا کیا کہ وہ مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کی راہ میں کوششیں کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ پروفیسر اختر الواسع جہاں اسلامیات کے ماہر ہیں تو وہیں ان کی نگاہ ہندوستانی سماج اور اس میں پائی جانے والی تہذیبوں و تمدنوں پر بھی بڑی گہری ہے ۔ مذہبی تکثیریت کا تحفظ، سماجی ہم آہنگی اور رواداری کے فروغ میں آنجناب کا قلم ہر دور اور وقت رواں دواں نظر آتا ہے۔ وہ متوازن اور معتدل سوچ کے علمبردار ہیں۔ انکیتا میں ایکتا پر ان کا یقین ہے۔ اسی فکر اور روایت کی وہ ترویج واشاعت کرنے اور ہندوستان کی سرزمین پر پرامن بقائے باہمی کے مکمل حامی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ بین مذہبی افہام و تفہیم، مذاکرات اور ہندوستانی اقدار کے سچے امین و پاسبان اور شناور دیکھنا ہے تو پروفیسر اختر الواسع کو بحسن و خوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کی تحریروں میں حب الوطنی، انسان دوستی، قومی یکجہتی اور تعدد و تکثیریت کے عناصر واضح طور پر نظر آتے ہیں۔